ٹیکس نیٹ بڑھنے میں رکاوٹ؟

پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کررہا ہے اسکی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ حتمی طور پر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں عام آدمی تو ماچس کی ڈبیا خریدنے پر بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہے جبکہ بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت دستیاب ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور ٹیکس قوانین میں وضاحت کی کمی بھی ٹیکس دہندگان کے لیے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔

پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے حال ہی میں ایف بی آر اور کسٹم کے بعض افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی کی ہے۔ تاہم ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کی ناکامی اس کی ایک مثال ہے۔

تاجر طبقے سے متعلق حکومت کے اپنے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں کاروبار کرنے والے 35لاکھ تاجروں میں سے صرف تین لاکھ باقاعدگی سے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے یکم اپریل کو شروع کی گئی ’’تاجر دوست اسکیم‘‘کے تحت 32 لاکھ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن ایک ماہ میں اس اسکیم کے تحت سو سے بھی کم تاجروں نے رضاکارانہ رجسٹریشن کروائی ہے۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے افسوسناک ہے کہ جی ڈی پی میں ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کا حصہ 18 فیصد ہونے کے باوجود اس شعبے کا محصولات میں حصہ چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تاجر دوست اسکیم ناکام ہونے کے بعد ایف بی آر نے نان فائلر تھوک اور خوردہ فروشوں کی سپلائز پر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ نئے ٹیکس ریٹس کا اعلان بجٹ 25-2024ء میں کیا جائے گا اور اس کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا۔ ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کے مجوزہ منصوبے کے مطابق تاجر دوست اسکیم کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونے والے ڈسٹری بیوٹرز کی مینوفیکچرر زکو سپلائز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر 10فیصد کر دی جائے گی جو اس وقت 0.2فیصد ہے، جس کا اثر ریٹیلرز کو منتقل کیا جائے گا۔ مینوفیکچرر سپلائی کرنے والوں سے ڈسٹری بیوٹرز کے 10فیصد ودہولڈنگ ٹیکس منہا کریں گے جسے نیچے سپلائی چین میں منتقل کیا جائے گا اسی طرح درآمدکنندگان بھی سپلائرز پر 10فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کاٹیںص گے۔ اس وقت فائلر تاجروں پر 0.1فیصد اور نان فائلرز پر 0.2 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس عائد ہے۔ ایف بی آر کے تخمینے کے مطابق اس اقدام سے تقریباً 400سے 500ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہو گا۔

اگرچہ اس اقدام سے حکومت کے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہو جائے گا لیکن طویل المدت بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ کہنا بیجا نہیں ہو گا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی حکومتی کوششوں کو ایک مرتبہ پھر دھچکا لگا ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ بھی امکان ہے کہ تاجروں کے متوقع احتجاج کے بعد ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے یا اس کی شرح میں اتنی کمی کر دی جائے کہ تاجروں کو اس پر اعتراض نہ رہے۔ اس طرح لامحالہ ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لئے تمام تر بوجھ یا تو عام عوام پر ڈالا جائے گا یا پھر ان سیکٹرز پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے گی جو پہلے سے ٹیکس نیٹ کا حصہ ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس فرسودہ سوچ کو تبدیل کر کے ٹیکس نیٹ میں توسیع کو ٹیکس اصلاحات کا بنیادی نکتہ بنائے اس سے ٹیکس ریونیو میں خودبخود اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر ہر شہری کے شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس نمبر قرار دیا جائے اور ایسے نان فائلرز کے خلاف فوری کریک ڈائون کیا جائے جو ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔

Leave a Comment