پاکستان کے شہر کراچی کی بندرگاہ پر اشیائے خور و نوش، خام مال اور طبی آلات سے بھرے ہزاروں کنٹینرز روک دیے گئے ہیں کیونکہ ملک کو اس وقت غیرملکی زرمبادلہ کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈالرز کی کمی کی وجہ سے بینکوں نے امپورٹرز کو نئے لیٹرر آف کریڈٹ (ایل سی) جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسی معیشت کے لیے دھچکا ہے جو پہلے ہی بڑھتے افراط زر اور کمزور معاشی نمو سے بدحال ہے۔
آل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن کے عہدیدار عبدالمجید نے بتایا کہ ’میں گزشتہ 40 برسوں سے اس کاروبار میں ہوں اور میں نے اس سے بُرا وقت نہیں دیکھا۔‘
وہ کراچی کی بندرگاہ کے قریب ایک دفتر سے بات کر رہے تھے جہاں پاکستان کی مینوفیکچرنگ صنعت کے اشیائے خور و نوش، ادویات، طبی آلات اور کیمکلز سے بھرے ہزاروں کنٹینرز کلیئر ہونے کے لیے کھڑے ہیں۔
کسٹمز ایسوسی ایشن کے چیئرمین مقبول احمد ملک نے بتایا کہ ’ڈالرز کی کمی کی وجہ سے بندرگاہ پر ہزاروں کنٹینرز پھنسے پڑے ہیں۔‘
رواں ہفتے سٹیٹ بینک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر چھ ارب ڈالر سے بھی کم ہو گئے ہیں جو گزشتہ نو برسوں میں سب سے کم ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ زرمبادلہ تقریباً ایک مہینے کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کے ساتھ پاکستان کی معیشت دگرگوں ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ہو چکی ہے اور مہنگائی کئی دہائیوں کی بلند ترین سطح پر ہے، جبکہ سیلاب اور توانائی کے بحران نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
پاکستان پر اس وقت 274 ارب ڈالر کے قرض واجب الادا ہیں جو اس کی جی ڈی پی کے تقریباً 90 فیصد کے برابر ہے۔
اسلام آباد کی امیدوں کا محور سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہوا معاہدہ ہے لیکن تازہ ترین ادائیگی گزشتہ برس ستمبر سے زِیرالتوا ہے۔ آئی ایم ایف پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے معاملے میں ’تھوڑا نرمی اور رحم دلی‘ کا مظاہرہ کرے۔
40 سالہ زبیر گُل جو چار بچوں کے باپ ہیں اور کراچی میں دیہاڑی دار مزدور ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کا اپنی کمائی میں گزارا کرنا ’بہت مشکل‘ ہو گیا ہے۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مجھے سستا آٹا لینے کے لیے دو سے تین گھنٹے تک قطار میں کھڑے ہونا پڑتا ہے۔‘
