صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان سرحد پر پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان ایک بار پھر جھڑپیں ہوئی ہیں جس کے نتیجے یں پاکستانی حدود میں کم از کم دس افراد زخمی ہوئے ہیں۔
سول ہسپتال چمن کے سینیئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر اختر اچکزئی نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ دس زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا ہے جنہیں جسم کے مختلف حصوں میں ’سپلنٹرز‘ لگے ہوئے ہیں۔
سرحد پر کشیدہ صورتحال کے پیش نظر چمن اور کوئٹہ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
ایک ہفتے کے دوران یہ دوسری مرتبہ ہے جب چمن میں پاکستانی اور افغان فورسز ایک دوسرے پر گولہ باری کررہی ہیں۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ مطابق جمعرات کی دوپہر کو تازہ جھڑپوں کا آغاز بھی چمن کے علاقے کلی شیخ لال محمد سے ہوا ہے جہاں 11 دسمبرکو بھی پاکستانی اور افغان فورسز آمنے سامنے آئی تھیں اور اس کے بعد جھڑپیں باقی علاقوں تک پھیل گئیں۔ان جھڑپوں میں کم از کم سات افراد ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی فورسز باڑ کی مرمت کرنا چاہتی تھیں جس پر سرحد پر تعینات افغان طالبان نے فائرنگ کی اور پاکستانی فورسز نے بھی جوابی کارروائی کی۔انہوں نے بتایا کہ دونوں جانب سے راکٹ اور مارٹر گولے داغے جارہے ہیں جبکہ توپوں کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق جھڑپوں کا سلسلہ پھیل گیا ہے اور دونوں ممالک کی فورسز سرحد کے قریب قائم ایک دوسرے کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنارہے ہیں تاہم اس کی زد میں آکر متعدد شہری زخمی ہوگئے ہیں۔
سول ہسپتال چمن کے ڈاکٹر اختر نے اردو نیوز کو بتایا کہ اب تک دس زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں جن کی حالت خطرے سے باہر ہیں تاہم انہیں جسم کے مختلف حصوں میں لوہے کے ذرات لگے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ زخمی ہونےوالے تما م افراد سویلین ہیں
اطلاعات کے مطابق افغانستان کی حدود میں بھی گولہ باری سے جانی نقصان ہوا ہے تاہم اس کی اب تک تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
گولہ باری کے باعث چمن اور دوسری جانب افغانستان سرحدی شہر سپین بولدک میں شہری خوفزدہ ہوکر محفوظ مقامات پر پناہ لے رہے ہیں۔
ایک عینی شاہد عمران اچکزئی نے چمن سے ٹیلیفون پر اردو نیوز نے بتایا کہ سرحد کے قریبی علاقے دھماکوں کی آوازوں سے گونج رہے ہیں ۔ بچے اور خواتین خوف کی وجہ سے رو رہی ہیں ۔لوگوں نے گھر کے تہہ خانوں میں پناہ لے رکھی ہیں ۔