پاکستان کا سیاسی بحران گزشتہ سال اپریل سے اس وقت سے جاری ہے جب سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیا۔
وفاق میں تو اپوزیشن نے حکومت بنا لی البتہ اس سیاسی گرداب میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب مکمل طور پر پھنس کر رہ گیا۔ ایک طرف صوبے کے وزیراعلی عثمان بزدار کو اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد سے ہٹایا تو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی زد میں آ کر اپوزیشن حکومت نہ بنا سکی۔
عثمان بزدار کو وزیراعلی کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد نئے منتخب ہونے والے وزیراعلی حمزہ شہباز اقتدار پر گرفت مضبوط نہ رکھ سکے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی 20 خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا میدان سجا تو تحریک انصاف نے 15 سیٹیں جیت کر حمزہ شہباز کے اقتدار کو ختم کر دیا۔
جولائی کے آخر میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چوہدری پرویز الہی وزیراعلی بن گئے۔ دوسرے لفظوں میں ایک ہی سال میں پنجاب میں تین وزرائے اعلی نے صوبے پر حکمرانی کی۔ جب عمران خان نے وفاقی حکومت پر دباو بڑھانے کے لیے خیبر پخوتنخواہ اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا تو اس میں بھی پنجاب کو پہلے قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
اس وقت نئے سال کے آغاز میں صوبہ پنجاب حکومت کے بغیر ہے۔ نئی عبوری حکومت اگر اگلے تین مہینے میں انتخابات کروا دیتی ہے تو پھر اپریل کے وسط میں ایک ایسی حکومت آئے گی جو شاید اس سیاسی کشمکش کو ختم کر سکے۔
اب اگلے تین ماہ بھرپور سیاسی ہنگام کے تناظر میں دیکھے جا رہے ہیں کیونکہ ن لیگ اور تحریک انصاف نے انتخابی سرگرمیاں شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پے درپے حکومتی کی تبدیلی سے صوبے کا نظم و نسق شدید متاثر ہوا ہے۔ چاہے ترقیاتی کام ہوں ہوں یا عوامی فلاحی منصوبے قانون سازی ہو یا سرکاری اداروں میں حکومتی پالیسوں پر عملدرآمد ہر چیز متاثر نظر آتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ پنجاب کی موجودہ بدحالی کی تاریخ اس سیاسی بحران سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔
’آپ کو یاد ہو گا 2018 میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو سب سے بڑی مشکل جو انہیں درپیش تھی وہ یہ کہ بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اور یہ بات عمران خان تک نے کیمروں کے سامنے کہی۔ وجہ یہ تھی کہ جس طریقے سے انہوں نے خود سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ان کے دور میں کام کرنے والے سرکاری افسروں کو گرفتار کر کے انہیں نشان عبرت بنایا تو اس سیاسی جماعت نے نہ صرف پوری انتظامی مشنری کا اپنا مخالف بنا لیا، بلکہ پنجاب کے 10 کروڑ افراد کو مستقل متاثر کیا۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ چار سال میں بیوروکریسی کے کام نہ کرنے کی شکایت عام رہی۔ سابق چئیرمین نیب جاوید اقبال نے بھی اپنی متعدد تقاریر میں پنجاب کے سرکاری افسروں کو ’منانے‘ کی کوشش جو بظاہر کامیاب نہیں ہوئی۔ ن لیگ کی حکومت ختم ہونے کے بعد متعدد بڑے عہدوں پر تعینات سرکاری افسران نے کرپشن کے الزامات میں حراست میں لیا تھا۔
مگر صحافی اور تجزیہ کار حبیب اکرم کہتے ہیں کہ صورت حال ایسی نہیں ہے۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ پنجاب کوئی زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔ پہلے کیا اس صوبے میں ہو رہا تھا جو اب نہیں ہو رہا؟ بیوروکریسی کام نہیں کر رہی تھی یا اب سیاسی بے یقینی ہے تو اس کی ذمہ داری گزشتہ 70 سال میں جس ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا گیا ذمہ داری ڈیلیور نہ کرنے والے ڈھانچے پر ہے۔‘
