پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ سچ کی لمبی خاموشی بہتر نہیں ہوتی۔
جمعرات کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ پریس بریفنگ کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ’میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا پڑتا ہے۔ میں اپنے محکمے کے لیے آیا ہوں جس کے افسر اور ایجنٹس پوری دنیا میں اس ملک کی پہلی دفاعی لائن بن کر کام کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب جھوٹ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جائے تو خاموش نہیں رہا جا سکتا۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ’لسبیلہ میں ہمارے کور کمانڈر اور ان کے ساتھ جوان شہید ہوئے اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔‘
’میر جعفر کہنا، میر صادق کہنا، نیوٹرل کہنا اور جانور کہنا اس لیے ہے کہ آرمی چیف اور ان کے ادارے نے غیرقانونی کام کرنے سے انکار کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ غیرجانبدار رہنا صرف آرمی چیف اور کسی ایک شخص کا فیصلہ نہیں تھا، یہ پورے ادارے کا فیصلہ تھا۔
جنرل ندیم انجم نے ارشد شریف کے حوالے سے کہا کہ ’معلومات اور تحقیق کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اُن کی زندگی پاکستان میں محفوظ تھی۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ ’کینیا کی پولیس نے کہا کہ شناختی کی غطلی کے باعث حادثہ پیش آیا ہے لیکن حکومت اور ہم اس بات سے مطمئن نہیں ہیں اس لیے تحقیقات کے لیے درخواست کی۔‘
’دانستہ طور پر تحقیقاتی ٹیم سے آئی ایس آئی کے افسروں کو نکال دیا تاکہ غیرجانبدار تفتیش کو ممکن بنایا جا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ ہمارا محاسبہ کیجیے، صبح و شام کیجیے مگر پیمانہ یہ رکھیے کہ میں نے ملک و قوم کے لیے کیا کیا، یہ نہ رکھیے کہ میں نے کیا کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کسی قسم کا خطرہ اندرونی عدم استحکام سے ہے۔
’نفرت اور تقسیم کی سیاست سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ معاشی مسائل کے باعث عدم استحکام سے خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایس آئی کے ادارے نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ صرف وہ کام کریں گے جو قوم کے مفاد میں ہے اور آئین کے مطابق ہے۔‘