وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ صدر عارف علوی نے وزیراعظم پاکستان کی سفارش پر فوج میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتیوں کی منظوری دے دی ہے۔
جنرل عاصم منیر آرمی چیف جبکہ جنرل ساحر شمشاد مرزا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کر دیے گئے ہیں۔ صدر عارف علوی نے وزیراعظم کی جانب سے بھیجی گئی ایڈوائس پر دستخط کر دیے ہیں۔
جمعرات کی شام وزیر دفاع نے میڈیا سے گفتگو میں صدر کے سمری پر دستخط کرنے کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آج جو ہم نے ایڈوائس بھیجی تھی اس پر عمل ہو گیا ہے۔ صدر عارف علوی نے (سمری پر) دستخط کر دیے ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس بار سینیئر ترین افسران کی تعیناتی کے باعث کوئی بھی افسر سپرسیڈ نہیں ہوا۔
پاک کی بری فوج کے موجودہ سپہ سالار جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اپنی تین سالہ توسیعی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد 29 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں اور وہ پاکستان فوج کی کمان نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سپرد کریں گے۔
صدر مملکت نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی تعیناتی کی ایڈوائس موصول ہونے کے بعد لاہور جا کر سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے مشاورت کی تھی۔

صدر عارف علوی کی ملاقات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے کہا تھا کہ ’صدر اسلام آباد پہنچ کر اپنے فیصلے سے متعلق اعلامیہ جاری کریں گے۔‘
خیال رہے کہ بدھ کی شام سابق وزیراعظم عمران خان نے نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر صدرِ مملکت ان سے رابطے میں ہیں اور وہ ان سے مشاورت کریں گے۔‘
انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اور صدر آئین کے اندر رہتے ہوئے اس معاملے پر کھیلیں گے۔‘
جمعرات کی صبح ہی وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے منظوری کے بعد وزیراعظم نے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف جبکہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف تعینات کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں ایڈوائس صدرمملکت کو بھیج دی۔
کابینہ اجلاس کے دوران جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ منجمد کرنے کی سمری کی منظوری بھی لی گئی۔
پاکستان میں آرمی چیف کی تعیناتی کو ہمیشہ ہی اہم سمجھا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ کئی ماہ پہلے سے اس حوالے سے خبریں نشر کرنے اور اندازے لگانے شروع کر دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں آئینی طور پر وزیراعظم بااختیار ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے عوامل کو سامنے رکھا جاتا ہے۔
موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے اس اختیار کو عمران خان نے عوامی سطح پر چیلنج کیا اور کہا کہ ’وہ نیا آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔‘
انہوں نے پوری کوشش کی کہ شہباز شریف اپنا یہ اختیار استعمال کرنے کے بجائے عبوری سیٹ اپ تشکیل دے کر انتخابات کا اعلان کریں اور نومنتخب وزیراعظم یہ اختیار استعمال کریں لیکن اتحادی حکومت نے ان کی یہ تجویز مسترد کر دی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے شہباز شریف کے لندن جا کر نواز شریف سے مشاورت کو بھی سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
دوسری جانب فوج میں اعلیٰ تقرریوں کے حوالے سے پہلی مرتبہ جی ایچ کیو سے آنے والی سمری بھی ماضی کی نسبت بہت زیادہ زیربحث رہی اور ایک وقت میں یہ تاثر بھی ملا کہ وزیراعظم آفس اور جی ایچ کیو میں سمری کے معاملے پر تنازع یا ڈیڈلاک ہے۔
پیر کو مقامی میڈیا میں یہ خبریں آئیں کہ سمری وزیراعظم آفس کو موسول ہو گئی ہے لیکن وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کی تردید کر دی۔
منگل کی شام کو دوبارہ جب یہی خبریں سامنے آئیں تو وفاقی وزیر اطلاعات اور وزیر دفاع نے پھر اس کی تردید کر دی تھی۔

بعدازاں آئی ایس پی آر کی جانب سے ٹویٹ آئی کہ سمری وزارت دفاع کو بھجوائی گئی ہے۔ جس کے بعد رات گئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے سمری کی وزیراعظم آفس میں موصول ہونے کی تصدیق کی۔
اس سے قبل وزیراعظم ہاؤس میں مشاورتی اجلاس بھی ہوا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں تعیناتیوں کے معاملے پر مشاورت اور معاملات طے پانے کے بعد جی ایچ کیو نے سمری بھجوا دی۔ سمری موصول ہونے کے بعد وزیراعظم نے بدھ کو اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کی تھی۔