پاکستان کے صوبہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پولنگ کا عمل جاری ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے صوبائی دفتر نے ایک بیان میں سیاست دانوں کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حلقہ بندیوں سے متعلق الیکشن کمیشن پر الزامات بے بنیاد ہیں۔
بیان کے مطابق سندھ کے مقامی حکومتوں کے قانون کے سیکشن 10 کے تحت لوکل کونسلوں کی تعداد کا تعین کرنا صوبائی حکومت کے ذمے ہے اور اس میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں۔ اور کمیشن نے قانون کے مطابق درست حلقہ بندیاں کی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کے بیان کو بھی اُن کی الیکشن پراسیس سے عدم واقفیت قرار دیا۔
وفاق میں اتحادی حکومت میں شامل جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی جانب سے کی گئی حلقہ بندیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔
کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے 16 اضلاع میں آج بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے امیدوار الیکشن میں اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
اتوار کو سندھ پولیس کے سربراہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سکیورٹی انتظامات پر اطمینان ظاہر کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق پولنگ شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہے گی۔
سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 32 لاکھ 83 ہزار 696 افراد اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔ سندھ بلدیاتی انتخابات کے لیے 8706 پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔
قبل ازیں ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے سنیچر اور اتوار کی درمیانی رات رابطہ کمیٹی کے ہمراہ بلدیاتی الیکشن سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادر آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’اب کراچی کا میئر جو بھی آئے گا ایم کیو ایم کی خیرات پر آئے گا۔‘
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ’ہماری کوشش میئر کے لیے نہیں بلکہ کراچی کی حقیقی نمائندگی کے لیے ہے۔‘
خیال رہے کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم الیکشن کمیشن نے صوبائی حکومت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے دوسرے مرحلے کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی۔