حیدر تقی ’’جو نہ مرتا کوئی دن اور‘‘

ارے حیدر تقی بھائی !یہ کیا کیا؟ آپ تو ہر بات میں میرا ساتھ دیتے تھے، اکیلے میں مجھے مشورے دیتے تھے، صبح وشام مجھے کالم لکھنے پر اکساتے تھے، اتنی جلدی چھوڑ کیسے گئے؟ آج سے 13سال قبل جب میں ادارتی صفحات کا ایڈیٹر بنا تو اس شعبے میں کام کرنے والے سب لوگ عمر اور رتبے میں مجھ سے بڑے تھے۔ سید انور قدوائی، شفیق مرزا، ایم طفیل لاہور میں بیٹھتے تھے جبکہ راولپنڈی میں جنگ کوئٹہ کے سابق ایڈیٹر مجید اصغر موجود تھے، کراچی میں سید شاہد بخاری، ثروت جمال اصمعی، اشتیاق علی خان اور حیدر تقی آپ سب عمر اور تجربے میں مجھ سے کہیں آگے تھے۔ شروع میں اتنے سینئرز کا ایک جونیئر کو ماننا مشکل تھا مگر میری تابع فرمانی اور محبت کام آئی، چند ہی ماہ میں ہم سب شیرو شکر ہو گئے۔

حیدر تقی میاں،آپ ان میں سے سب سے پہلے تھے جنہوں نے محبت آمیز لہجے میں میری ہر بات پر صاد کہا ،اس زمانے میں ایم کیو ایم کا ڈنڈا چلتا تھا، وہ اپنی مرضی کے مضامین کی لائن لگا دیتے تھے، میں نے چارج سنبھالتے ہی دفتری پالیسی کے تحت غیر معیاری لکھنے و الوں کو روک دیا، اس پر ایم کیو ایم نے بڑی لے دے کی مجھے دفتر والوں نے کہا کہ حیدر میاں نے ایم کیو ایم کو آپ کے احکامات لیک کر دیئے ہیں ،مجھے افسوس ہوا مگر جب تحقیق کی تو یہ بات غلط نکلی، بس تب سے حیدر تقی آپ رتبے میں بڑے بھائی بن گئے مگر آپ دفتری امور میں اس قدر ڈسپلنڈ تھے کہ احکامات کی بجا آوری میں ذرہ برابر تامل نہ کرتے تھے، دفترمیں چھوٹے بھائی بن جاتے تھے۔ حیدر بھائی آپ جیسا قابل اعتبار اور قابل اعتماد ورکر ملنا محال ہے۔ شدید بیماری اور جسم میں درد کے باوجود روزانہ دفتر آتے، بڑھاپے کو دفتر سے باہر چھوڑ کر آتے اور آفس کے اندر قلانچیں بھرتے پھرتے۔ حیدر بھائی اگر کوئی ساتھی غیر حاضر ہوتا تو آپ فوراً متبادل انتظام کرنے لگ جاتے، عید شب برات آ رہی ہوتی تو آپ پہلے سے ادارتی صفحات کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ،آج کون بیمار ہے کل کون غیر حاضر ہو گا یہ سب آپ ہی مجھے بتاتے تھے۔ میرا کالم کا دن ہوتا تو صبح صبح آپ کا پیغام آتا کہ آج کالم ضرور لکھیے کالموں کی کمی ہے۔کسی ہفتے مجھے ابال آتا تو معمول سے زیادہ کالم بھی لکھ ڈالتا آپ ہمیشہ کہتے اور لکھیے ادارتی صفحے کیلئے بہت ضروری ہے۔ حامد میر، سلیم صافی یا عطاالحق قاسمی میں سے کوئی ناغہ کرتا تو آپ ہمیشہ مجھے کہتے کہ ان سے بات کریں اور ان سے کالم منگوائیں۔

حیدر تقی جی !مزاح آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا سنجیدہ گفتگو میں بھی ایک آدھ فقرہ ایسا کہہ جاتےتھے کہ محفل کشتِ زعفران بن جاتی ۔آپ بھابھی کے ہمراہ لاہور میرے گھر آئے تو دو تین گھنٹے وہ محفل لگائی کہ یادگار ہے ۔تایا رئیس امروہوی کے قصے، والد سید محمد تقی کی کہانیاں،چچا جون ایلیاکی پھل جھڑیاں آپ ایسے سناتے کہ لگتا کہ امروہہ کا یہ سید خاندان ہمارے سامنے بیٹھا ہے۔ آپ کہتے میرے والد سید محمد تقی بڑے بھائی رئیس امروہوی کے اشارے کے منتظر ہوتے ۔ادھر اشارہ ہوتا اِدھرسید محمدتقی بھی شیروانی پہن کر بھائی کےساتھ چلنے پر تیار ہو جاتے ،دونوں بھائی یک جان دوقالب تھے، آپ جون ایلیا کے مزیدار قصے سناتےکہ انہیں کبھی سگریٹ کی ضرورت ہوتی تو تب حیدر تقی میاں ہی کام آتے تھے، آپ سناتے تھے کہ جون ایلیا کی پہلے رئیس امروہوی کی بیٹیوں سے بہت الفت اور محبت تھی مگر جائیداد کے معاملے میں آکر بات لڑائی تک پہنچ گئی۔ حیدر تقی ! آپ خاندان امروہہ کی شاندار روایات کے امین،انکے حسن سلوک کا آئینہ اور انکے انداز گفتگو کا پرتو تھے،سخت سے سخت بات اتنے نرم، غلاف دار لہجے اور ریشمی انداز میں کرتے تھے کہ آپ کی بات سیدھی دل میں اتر جاتی تھی، حیدر بھائی آپ کے پسندیدہ بھانجے ظفر مسعود اور کاظم تھے جن کی کامیابیوں کا آپ اکثر ذکر کرتے اورخوش ہوتے تھے۔

حیدر تقی بھائی !آپ نے اپنی بیماری کے ساتھ مثالی پنجہ آزمائی کی ۔آپ کو کینسر تھا مگر آپ نہ ماننے کو تیار تھے اور نہ ہی شائد اس عمر میں آپ کا آپریشن ہوسکتا تھا مگر سچ یہ ہے کہ کینسر بھی یاد رکھے گا کہ حیدر تقی نے کس طرح کینسر سے لڑائی کی۔ دن بھر خود کو دفتر میں مصروف رکھتے اور ایسا ظاہر کرتے کہ جیسے آپ کو کوئی بیماری ہے ہی نہیں ۔ حیدر تقی بھائی !رخصت لینا ورکر اپنا استحقاق سمجھتے ہیں لیکن آپ جب بھی چھٹی مانگتے، آپ کا انداز معذرت خواہانہ ہوتا اور ایسے لگتا کہ بہ امر ِمجبوری رخصت لے رہے ہیں ۔سال میں ایک بار بیٹیوں اور نواسوں سے ملنے امریکہ جاتے تھے لیکن اس دوران بھی فون کرکے دفتری امور کے بارے میں بتاتے ،اپنی صاحبزادی سے بات کراتے اور گا ہے گاہےاپنے حالات سے آگاہ کرتے رہتےتھے۔

حیدر تقی صاحب! آپ اچانک ہمیں چھوڑ کر چپکے سے چلے گئے آپ تو کہتے تھے کہ میں ہمیشہ ہر حال میں آپ کے ساتھ رہوں گا حیدر بھائی عمر میں مجھ سے بڑے تھے لیکن پیار اور احترام میں چھوٹے بھائی بن جاتے تھے،مجھے گھر کی باتیں بھی بتا دیتے تھے ہماری بھابھی بہت مذہبی ہیں لیکن آپ بہت ہی معتدل اور آزاد طبیعت کے مالک تھے خاندانی طور پر شیعہ مسلک کے تھے مگر بچوں کی شادی میں مسلک کو مدنظر نہ رکھا فرصت کے اوقات میں آپ ہلکے پھلکے انداز میں مختلف مسالک کے بارے میں تبصرہ بھی کر لیا کرتے تھے کوئی سخت مذہبی یا حکومت مخالف کالم آجاتا تو آپ فوراً مجھے مطلع کرتے کہ اس کو دیکھ لیں، اگر کوئی کالم نگار مسلسل پالیسی کے خلاف لکھتا تو آپ مجھ سے کہتے اس پر نظر رکھنی پڑے گی ،اگر کوئی کالم نگار بھرتی کا مواد لکھ ڈالتا تو کہتے آج صفحہ کمزور ہے آج ایک بھی زوردار مضمون نہیں ہے ۔احکامات کی بجاآوری توحیدر بھائی آپ پر ختم تھی، اِدھر کہا جاتا کہ کالموں کی فہرست چاہیے، جھٹ سےآپ فہرست بنا کر بھیج دیتے، ادھر آپ سے فرمائش ہوتی کہ کالم نگاروں کا شیڈول چاہئے اگلے ہی روز نیا شیڈول آجاتا۔

حیدر تقی بھائی !آپ کا سارا خاندان ہی صاحب کتاب تھا مگر آپ کچھ بھی لکھنے سے گھبراتےتھے شاید کتابوں میں گِھر کر آپ خود ایک کتاب بن چکے تھے جسے آپ کھولنا نہیں چاہتے تھے ،آپ کو کیا پتہ تھا کہ آپ کے جانے کے بعد ہر کوئی اشک بار بھی ہوگا اور ہر کوئی آپ پر کچھ نہ کچھ لکھے گا بھی ،آپ خود لکھنے سے گریزاں تھے مگر آپ جانے کے بعد آپ عیاں ہوگئے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ آپ خود پر لکھے گئے کالم پڑھ کر کبھی مسکراتے اور کبھی قہقہہ لگاتے ہونگے ۔حیدر تقی بھائی !مجھے علم ہے کہ آپ کا سارا خاندان بڑا متمول تھا جبکہ آپ کارکن صحافی ہونے کے کارن گزارے کا اعزازیہ حاصل کرتے تھے آخری برسوں میں بیٹے نے گاڑی خرید دی تو آپ شان وشوکت اور اطمینان سے دفتر آتے تھے، گزارے کی تنخواہ میں بھی مطمئن رہتے آپ دفتری کام کے بارے میں اس قدر فکرمند رہتے تھے کہ آپ کو شاید خواب میں بھی کالم نگار اورمضمون ہی نظر آتے تھے۔ صبح سویرے ہی آپ کو فکر لگ جاتی تھی کہ آج کون کون لکھے گا اور آج کس کس سے اضافی مضمون لکھوانا ہے ؟شدید بیماری میں بھی آپ کی یادداشت بالکل ٹھیک رہی فوراً بتا دیتے افضال ریحان کا کالم تین دن پہلے بھی شائع ہوا ہے۔ اسد مفتی کا کالم ایک ہفتے سے رکا ہوا ہے، فاروق چوہان کا بار بار فون آ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔

حیدر تقی بھائی ! میں بیرون ملک تھا تو پتہ چلا کہ آپ اگلی دنیا کی طرف سفر کر گئے ہیں، اتنا دکھ ہے کہ کسی کو بتا نہیں سکتا، اعتماد کا جو رشتہ ہمارے مابین تھا وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتا، ہم میں سے ہر ایک نے ایک دن چلے جانا ہے ہم میں سے کوئی بھی ناگزیر نہیں، سب فانی ہیں سب کا خلا پورا ہو جاتا ہے آپ کی جگہ بھی پر ہو جائے گی مگر آپ جیسی محبت ،اخلاق اور حسن ِکارکردگی شاید کوئی دوسرا نہ دکھا سکے۔ ہمارے دلوں میں آپ کی شخصیت کا خلا ہمیشہ رہےگا مجھے لگتا ہے کہ حیدر بھائی آپ اگلی دنیا میں جاکر قہقہے لگا رہے ہیں اور ہمیں بغور دیکھ رہے ہیں کہ ہم آپ کے بغیر کیسے کام کر پائیں گے؟ حیدر بھائی! جہاں رہیں خوش رہیں آپ نے ہمیشہ راحت دی، اللّٰہ آپ کو رحمت سے نوازے۔

Leave a Comment